کہا اُس نے ، زمانہ درد ہے اور تُم دوا جیسے
لگا، “تُم سے محبت ہے” مجھے اُس نے کہا جیسے
طلب کی اُس نے جب مجھ سے محبت کی وضاحت تو
بتایا، دَشت کے ہونٹوں پہ بارش کی دُعا جیسے
سُنو کیوں دل کی بستی کی طرف سے شور اُٹھتا ہے ؟
بتایا، حادثہ احساس کے گھر میں ہوا جیسے
کہو اے گُل ! کبھی خوشبو کا تُم نے عکس دیکھا ہے ؟
کہا ، قوسِ قزح کے سارے رنگوں کی صدا جیسے
سُنو ، خواہش کی لہروں پر سنبھلنا کیوں ہوا مُشکل ؟
بتایا پانیوں پر خواب کی رکھی بنا جیسے
بھلا تُم رُوح کی اِن کِرچیوں میں ڈھونڈتے کیا ہو ؟
کہا ، یہ اتنی روشن ہیں کہ سُورج ہے دیا جیسے
سُنو آنکھوں کی آنکھوں کا بیاں کیسا لگا تُم کو ؟
لگا ، پھولوں سے سرگوشی سی کرتی ہو صبا جیسے
No comments:
Post a Comment