ہجوم میں مجھ کو تو نے کھڑا کیا بھی تو کیا
عدو کا کام ترے ہاتھ سے ہوا بھی تو کیا
میں جی رہی ہوں تو یہ کم ہے،غور کرنا کبھی
یہ آسماں مرے سر پہ آ پڑا بھی تو کیا
بہت سے لوگوں نے سینے پہ ہاتھ رکھے ہیں
یہ تیر آج میرے دل میں چبھ گیا بھی تو کیا
گُلاب خاک پہ رکھا تو خار مُٹھی ہیں
ستم شعار! تجھے یہ ہنر ملا بھی تو کیا
وہاں پہ جا کے بھی جب نامراد ہونا ہے
یہ راستہ تیری چوکھٹ پہ لے گیا بھی تو کیا
خوشی ہوئی ہے یہ سن کر مگر بتا تو صحیح
تو ہوگیا جو مرے بعد باوفا بھی تو کیا
نہ دل بچا ہے نہ خواہش، ملے ہو اب جا کے
اب اِس مقام پہ مجھ کو ملے خدا بھی تو کیا
ستارے مل کے بھی یہ تیرگی مٹا نہ سکے
ہے میرے ہاتھ میں مٹی کا دِیا بھی تو کیا
اسے تو قید کی عادت سی ہوگئی تھی بتول
یہ دل ہوا تری یادوں سے اَب رہا بھی تو کیا
No comments:
Post a Comment