Saturday 28 April 2012

کلیوں کی مہک ہوتا، تاروں کی ضیا ہوتا



کلیوں کی مہک ہوتا، تاروں کی ضیا ہوتا
میں بھی تیرے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا

ہر چیز زمانے کی آئینہ دل ہوتی
خاموش محبت کا اتنا تو صِلہ ہوتا

تم حالِ پریشاں کی پُرسش کے لیے آتے
صحرائے تمنّا میں میلہ سا لگا ہوتا

ہر گام پہ کام آتے زلفوں کے تیری سائے
یہ قافلئہ ہستی بے راہنما ہوتا

احساس کی ڈالی پر اِک پُھول مہکتا ہے
زُلفوں کے لیے تم نے اِک روز چُنا ہوتا

ساغرؔ صدیقی

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...