ادھ کھلی آنکھوں میں کچھ خواب جگائے اس نے
خود ہی تعبیر کے امکان مٹائے اس نے
جس کے ہاتھوں نے کماں کو کبھی تھاما ہی نہ تھا
تیر اَن دیکھے مرے دل پہ چلائے اس نے
میرے مٹی کے گھروندے کو گِرا کر پل میں
خود ہواؤں میں کئی محل بنائے اس نے
وہ دیالو ہے مگر اتنا دیالو بھی نہیں
روشنی چھین کے کچھ دے دئیے سائے اس نے
کہکشاں ساری کی ساری ہی چھپا کر گھر میں
کچھ ستارے میری پلکوں پہ سجائے اُس نے
No comments:
Post a Comment