Monday 13 February 2012

adh khuli ankho may kuch khwab jagay us nay



ادھ کھلی آنکھوں میں کچھ خواب جگائے اس نے
خود ہی تعبیر کے امکان مٹائے اس نے

جس کے ہاتھوں نے کماں کو کبھی تھاما ہی نہ تھا
تیر اَن دیکھے مرے دل پہ چلائے اس نے

میرے مٹی کے گھروندے کو گِرا کر پل میں
خود ہواؤں میں کئی محل بنائے اس نے

وہ دیالو ہے مگر اتنا دیالو بھی نہیں
روشنی چھین کے کچھ دے دئیے سائے اس نے

کہکشاں ساری کی ساری ہی چھپا کر گھر میں
کچھ ستارے میری پلکوں پہ سجائے اُس نے

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...